Positive and negative aspects of joint family system and reforming it is the need of the hour جوائنٹ فیملی سسٹم کے مثبت و منفی پہلو اور اس میں اصلاحات لانا وقت کی اہم ضرورت

Asslamoalekum and hello to my Family and Friends Community. I hope you are all doing well. I am also doing pretty well. In today's blog, I will talk about the merits and demerits of the joint family system which prevails in our society. And which reforms we should implement for the effective use of this system.

اسلام علیکم اور میری Family and Friends کمیونٹی کو سلام۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ میں بھی بہت اچھا ہوں۔ آج کے بلاگ میں میں ہمارے معاشرے میں رائج مشترکہ خاندانی نظام کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں بات کروں گا۔
اور اس نظام کے موثر استعمال کے لیے ہمیں کن اصلاحات کو نافذ کرنا چاہیے

The characteristics of the nations living on the planet, such as lifestyles, languages, ways of thinking, customs and manners, goals and even clothes are different. Culture is formed based on these characteristics. Every nation, society, and region has its own culture, The identity of this nation and region is the basis of the desire and effort of every nation in the world to have their culture dominate everywhere and especially in their region. Every member of the nation loves his culture.

کرہ ارض پر بسنے والی اقوام کی خصوصیات مثلا رہن سہن،زبانیں،طرز فکر،عادات و اطوار،مقاصد حتی کہ لباس بھی مختلف ہیں انہی خصوصیات کی بناء پر کلچر بنتے ہیں ہر قوم ،معاشرے،علاقے کا اپنا ہی کلچر ھوتا ھے جو کہ اس قوم،علاقے کی شناخت کی بنیاد ھوتا ھے دنیا کی ہر قوم کی یہی خواہش اور کوشش ھوتی ھے انکے کلچر کا ہر جگہ غلبہ ھو اور خاص کر انکے اپنے علاقہ میں قائم و دائم رھے۔ قوم کے ہر فرد کو اپنا کلچر عزیز ھوتا ھے۔

( The image is created in Meta AI Whatsapp)
◾ Today we will talk about a family system prevalent in the Indian subcontinent, which has been the way of life of many nations in ancient times. In which a large family (grandfather, grandmother, husband, wife, aunt, uncle and their sons) lives in the same mansion where all the members of the family have one person who is the head of the family. But the readers will be shown a reflection of this system, its advantages will also be seen and its hidden disadvantages will also come to your knowledge.
Both Ahmed and Asif were close friends who were also cousins ​​(Khalazad Bhai) and both studied in the same college in the same class for four years. Ahmed lived in the city and Asif lived in the village. Ahmed's father had died due to a heart attack some time ago. Last year, the children's school was on summer vacation, so Ahmed called Asif and stubbornly said that he would stay in the village for a few days. Bring the kids and give us a chance to be hospitable. When Asif mentioned going to the village in front of the children, they started insisting that they must go to the village from that very day. Finally, Asif left for his aunt's house, meaning Ahmed's house, along with the children. He was chatting with his sons and a few members of the community in the cool shade of the village. Mercy has come to our house (Rahmat means guest. There is a custom among the rural people of Pakistan, if a guest comes to their house, they give thanks) immediately to their grandson Ahmed to slaughter a goat and prepare bread for the guests. Ahmed immediately called the butcher to his camp and slaughtered one of the goats on the farm.

◾ آج ہم برصغیر پاک و ہند میں رائج ایسے فیملی سسٹم پر گفتگو کریں گے جو قدیم زمانوں میں کئی اقوام کا طریق زندگی رہ چکا ھے موجودہ دور میں اس کا وجود برصغیر پاک و ہند تک ہی محدود رہ گیا ھے وہ ھے جوائنٹ فیملی سسٹم ،جس میں ایک بہت بڑا خاندان (دادا،دادی، میاں، بیوی،ھائ، چچا اور ان کے بیٹے) ایک ہی حویلی میں رہائش پذیر ھوتا ھے جہاں پر خاندان کے تمام افراد کا ایک ہی فرد جو کہ اس خاندان کا سربراہ ھوتا ھے یہاں پر قارئین کو اس نظام کا عکس دکھایا جائے گا اس میں اس کے فائدے بھی نظر آئیں گے اور اس میں چھپے نقصان بھی آپکے علم میں آئیں گے۔
◾احمد اور آصف دونوں گہرے دوست تھے جو آپس میں کزن (خالہ زاد بھائ ) بھی تھے دونوں چار سال ایک ہی کالج ،ایک ہی کلاس میں پڑھتے رھے۔احمد شہر میں اور آصف گاوں میں رہتا تھا کلاس فیلو اور کزن ھونیکی وجہ سے دونوں کی آپس میں گہری دوستی تھی احمد کا والد کچھ عرصہ قبل دل کے دورے کی وجہ سے فوت ھو گیا تھا گزشتہ سال بچوں کی سکول کی موسم گرما کی چھٹیاں ھوئ تو احمد نے آصف کو کال کی اور ضد کرتے ھوئے کہا کہ کچھ دن گاؤں میں بچوں لیکر آ جائیں اور ہمیں مہمان نوازی کا موقع دیں۔ آصف نے بچوں کے سامنے گاؤں جانے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے اسی دن سے ضد کرنا شروع کر دی کہ گاؤں لازمی جائیں گے۔ آخرکار آصف خالہ کے گھر مطلب احمد کے گھر بچوں کے ہمراہ روانہ ھو گیا جیسے ہی آصف خالہ کے گھر پہنچا تو احمد اور اسکی باقی فیملی ممبرز نے ان کو خوش آمدید کیا اور بیٹھک پر لے گئے جہاں پر احمد کے دادا جان پگڑی پہنے ھوئے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں اپنے بیٹوں اور برادری کے چند بندوں کے ساتھ گپ شپ لگا رھے تھے جیسے ہی اس نے آصف اور اس کے بچوں کو دیکھا تو خوشی خوشی اٹھ کر احمد کو اور اس کے بچوں کو ملے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج ہمارے گھر میں رحمت آئ ھے(رحمت کا مطلب مہمان ھے پاکستان کے دیہاتی لوگوں میں رواج پایا جاتا ھے اگر انکے گھر کوئ مہمان آ جائے تو وہ شکر ادا کرتے ہیں) فورا اپنے پوتے احمد کو بکرا ذبح کر کے مہمانوں کی روٹی کا بندوبست کرنے کا کہا احمد نے قصائ کو فورا اپنے ڈیرے پر بلا کر فارم پر موجود بکروں میں سے ایک بکرا ذبح کرا دیا۔

( The image is created in Meta AI WhatsApp)
◾Ahmed belonged to a very large landowning family, his grandfather had 70 acres of agricultural land, some of which was planted with malt and guava orchards and the rest of the land was cultivated with various crops and vegetables. Ahmed, his brother, his uncle, and the whole family were living in a big mansion, which had a joint family system. As soon as the aunt saw her nephew, Asif, she ran and kissed Asif's forehead and started loving his sons. Asif's sons were very happy. Bhai Naqash's son, who was working in a private company abroad, his family also lived in the same house) came and Asif's sons started talking to them. Asif and his sons went to rest in the room due to the fatigue of the journey and fell asleep as soon as they woke up, it was almost evening. Ahmed took his cousin Asif and his sons to his tube well to take a bath, where Asif and his sons bathed in freshwater by running the tube well. The freshwater was so cold that the children started feeling cold. It was evening time, Asif and his sons were taken to the sitting room, a room was prepared for them, and their mutton kadhai and kheer were prepared in evening bread. On that day, not only the guests but the whole family ate mutton and kheer. As soon as it got dark after the evening, the people of the village started gathering at the sitting place. The people of the village discussed the problems of the area and various topics till the evening time, after some time all the people went back because the people the lage hashavehabit of sleeping early at night and getting up early in the morning. Cold milk was served to Asif and his sons before going to bed. Dada Jan assigned a servant to take care of Asif and strictly said that he would take special care of the guest's needs.

◾احمد بہت بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس کے دادا کا 70 ایکڑ زرعی رقبہ تھا اس میں سے کچھ رقبے پر مالٹے اور امرود کا باغ بھی لگا ھوا تھا اور باقی رقبہ پر مختلف فصلیں اور سبزیاں کاشت کی جاتی تھیں۔ احمد ،اس کے بھائ، اس کے چچا ساری فیملی ایک بہت بڑی حویلی میں رہائش پذیر تھی جن کا جوائنٹ فیملی سسٹم تھا آصف اور اس کے بیٹے کچھ دیر بیٹھک پر بیٹھے رھے وہاں پر انکو ٹھنڈی شربت پلائی گئ اس کے بعد خالہ سے ملنے ان کے گھر کیطرف چلا گئے جیسے ہی خالہ نے اپنے بھانجے آصف کو دیکھا تو دوڑتی ھوئ آئ اور آصف کے ماتھے کو چوما اور اس کے بیٹوں کو پیار کرنے لگی آصف کے بیٹے بڑے خوش ھوئے اتنی دیر میں احمد کے بیٹے ،اس کے بھتیجے(بڑے بھائ نقاش کے بیٹے ، جو کہ بیرون ملک کسی پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتا تھا اس کی فیملی بھی اسی گھر میں رہائش پذیر تھی) آ گئے اور آصف کے بیٹوں کو مل کر ان کے ساتھ باتیں کرنا شروع کردی خالہ نے حال احوال پوچھ کر کہا کہ آپ تھکے ھوئے آئے ہیں تھوڑی دیر آرام کر لیں۔آصف اور اس کے بیٹے سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے کمرے میں آرام کرنے چلے گئے بستر پر لیٹتے ہی فوری سو گئے جیسے وہ اٹھے تو شام کا وقت قریب تھا۔ احمد ،اپنے کزن آصف اور اس کے بیٹوں کو نہانے کیلئے اپنے ٹیوب ویل کی طرف لے گیا جہاں پر ٹیوب ویل چلا کر آصف اور اس کے بیٹوں نے تازہ پانی سے نہایا تازہ پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ بچوں کو سردی محسوس ھونے لگی۔ شام کا وقت ھو گیا آصف اور اس کے بیٹوں کو بیٹھک پر لے گئے ان کیلئے ایک کمرہ تیار کیا گیا تھا وہاں پر شام کی روٹی میں مٹن کڑاہی اور کھیر تیار کی گئ تھی ۔ اس دن نہ صرف مہمانوں نے بلکہ پورے خاندان نے مٹن اور کھیر کھائ۔جیسے ہی شام کے بعد اندھیرا چھایا تو بیٹھک پر گاوں کے لوگ اکٹھا ھونا شروع ھو گئے جو بھی بندہ بیٹھک پر آتا تو سب سے پہلے آصف (مہمان) کو ملتا تھا مغرب کے وقت تک گاوں کے لوگوں نے علاقے کے مسائل اور مختلف موضوعات پر گفتگو کی کچھ دیر بعد سارے لوگ واپس چلے گئے کیونکہ گاوں کے لوگوں کی رات کو جلدی سونے اور صبح جلدی اٹھنے کی عادت ھوتی ھے۔ رات سونے سے پہلے آصف اور اس کے بیٹوں کی خدمت میں ٹھنڈا دودھ پیش کیا گیا دادا جان نے ایک بندے کو آصف کی دیکھ بھال کیلئے ڈیوٹی لگائ اور سختی سے کہا کہ وہ مہمان کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھے گا آصف کے بیٹے رات کو اس کی خالہ کے پاس چلے گئے

Asif had slept early that night, that's why he got up early in the morning. Asif felt very relieved by going to a pollution-free, calm and healthy environment. It is the daily routine of the villagers to wake up early in the morning, pray and engage in their work. To do labour, and fill water at any well, women extracted milk from animals at home and made butter and lassi.
During the day, hospitality was served with desi chicken curry, tandoor bread along with butter and lassi. Every day before the evening, I used to go for a walk in the garden and fields and at night people used to come together on the bench to drink hakka my children were so happy that maybe their faces were so happy in this urban life. I had never seen Ahmed's sons and his nephews playing games with their nieces, picking fruits from the garden, or bathing in the tube well.

◾آصف رات کو جلدی سو گیا تھا اسی لیئے صبح سویرے ہی اٹھ گیا صبح بیٹھک سے باہر کھیتوں کی طرف گیا تو سرسبز و شادب اور لہلہاتے کھیت جو آنکھوں کو ٹھنڈک و فرحت بخش رھے تھے ،نہ ہی ٹریفک کا شور شرابہ و دھواں ،نہ ہی آلودگی ، پرسکون اور صحت افزا ماحول میں جا کر آصف نے خوب راحت محسوس کی۔صبح سویرے لوگوں کا جاگ کر نماز پڑھ کر اپنے اپنے کاموں میں مشغول ھونا دیہاتی لوگوں کی روزمرہ کی روٹین ھے کوئ ریوڑ لیکر جا رہا ھے تو کوئ کھیتوں میں مزدوری کرنے،کوئ کنواں پر پانی بھرنے، عورتیں گھروں میں جانوروں کا دودھ نکال رہی ہیں اور کوئ مکھن، لسی بنا رہی ہیں۔
دن کے وقت دیسی مرغی کا سالن،تندور کی روٹی اور اس کے ساتھ ساتھ مکھن اور لسی کیساتھ مہمان نوازی کی گئ۔ روزانہ شام سے پہلے باغ اور کھیتوں میں جا کر واک کرتے اور رات کے وقت لوگ بیٹھک پر اکٹھے ھو کر حقہ پینے اور گپ شپ لگانے کیلئے آتے تھے اور میرے بچے تو اتنے خوش تھے کہ شاید ان کے چہرے پر اتنی خوشی اس شہری زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی پورا دن احمد کے بیٹوں اوراس کے بھتیجے،بھتیجیوں کے ساتھ کھیل کود، باغ میں سے پھل توڑنے جانا،ٹیوب ویل پر نہانے میں مصرف رہتے تھے۔

Positive Aspects of Joint Family System
◾ In the evening, Ahmed's entire family used to sit together and eat bread. After spending a few days, Asif * praised their joint family system in front of Ahmed and said * every time I have come to your house since childhood till now. I came and saw the love, kinship, unity and agreement of all the members of your family. There is only one head of your entire family. Every person in the family has different tasks like growing crops, taking care of the garden, driving a tractor, grazing animals, extracting milk from animals, cutting wood, dropping off children from school, going to the hospital if someone is sick, Buying essential items from the market, cooking food, participating in the sad and happy occasions of the village, even taking special care of the guests are given separate responsibility. The whole family attends to solve it. This system is very ideal for children. From childhood to adulthood, instead of playing games on mobile phones, children spend time playing on the laps of grandparents, aunts, uncles, aunts and grandparents. And when we city people leave home in the morning, we
He is worried about his wife and children, what condition they will be in, and your elder brothers are working abroad, they are not worried about food, drink, housing, school etc. The family feels completely secure even while living abroad. Iftheismm is prevalent in a house in the city, where three brothers have bought three houses separately and have different businesses and jobs if they have only one house instead of four. If they buy a big house or two houses that are located together, they will be more secure than before, they will be helpful to each other and the biggest benefit will be their economic benefit because by living together, any The family's expenses are reduced, however, this system strengthens the family and gives it a powerful and influential position in the society.

جوائنٹ فیملی سسٹم کے مثبت پہلو
◾ شام کے وقت احمد کا پوری فیملی اکٹھی بیٹھ کر روٹی کھاتے تھے۔آصف نے چند دن گزارنے کے بعد احمد کے سامنے ان کے جوائنٹ فیملی سسٹم کی تعریف کرتے ھوئے کہا کہ بچپن سے لیکر آج تک جب بھی آپکے گھر آیا ھوں یہاں آ کر آپکے خاندان کے تمام افراد کا آپس میں پیار ، اقرباپروری، اتحاد و اتفاق کو دیکھ کر کافی متاثر ھوا ہوں آپکے پورے خاندان کا صرف ایک ہی سربراہ ھے وہ جو بھی حکم دے جس بندے کے ذمہ جو بھی کام لگائے وہی ھوتا ھے اور خاندان میں موجود ہر فرد کو مختلف کاموں کی فصلیں اگانا،باغ کی دیکھ بھال،ٹریکٹر چلانا،جانوروں کو چرانا، جانوروں کا دودھ نکالنا،لکڑیاں کاٹنا، سکول چھوڑنے بچوں کو جانا، کوئ مریض ھے تو اس کو ہسپتال میں چیک کرانے جانا،بازار میں سے اشیائے ضروری خریدنا،کھانا پکانا، گاوں کی غمی ،خوشی کے موقع پر شرکت کرنا، حتی کہ مہمانوں کا خاص خیال رکھنے کیلئے علیحدہ علیحدہ ذمہ داری سونپی ھوئ ھے بچے سے لیکر بڑے تک کسی کا کوئ بھی مسئلہ ھو ،اس کو حل کرنے کیلئے پورا خاندان حاضر ھوتا ھے۔ بچوں کیلئے یہ سسٹم بہت ہی زیادہ آئیڈیل ھے بچپن سے لیکر بڑے ھونے تک بچے موبائل پر گیمز کھیلنے کی بجائے دادا،دادی،چچا ،چچی ،پھوپھی کی گود میں کھیل کر وقت گزارتے ہیں ہر وقت بزرگوں کی نگرانی میں رہ کر بچوں پرورش ھوتی ھے اور ہم شہر والے صبح جب گھر سے نکلتے ہیں تو ہمیں
اپنے بیوی،بچوں کی فکر ھوتی ھے کہ وہ کس حال میں ھونگے، اور آپکے بڑے بھائ تو بیرون ملک نوکری کر رھے ہیں ان کو اپنے بیوی بچوں کے متعلق کھانے،پینے،رہائش،سکول وغیرہ کسی بھی چیز کی پریشانی نہیں ھے وہ اپنی فیملی کو بیرون ملک رہ کر بھی مکمل secure محسوس کرتے ہیں۔یہی سسٹم اگر شہر میں کسی گھر میں رائج ھو تو جہاں پر تین بھائیوں نے تین مکان علیحدہ علیحدہ خرید رکھے ہیں جن کے مختلف کاروبار اور ملازمتیں ہیں وہ اگر چار کی بجائے ایک ہی بڑا سا مکان یا دو مکان جو اکٹھے واقع ھوں خرید لیں تو خود کو پہلے سے زیادہ محفوظ بھی کر لیں گے،ایک دوسرے کیلئے مددگار ثابت ھوں گے اور سب سے بڑا فائدہ ان کا معاشی فائدہ ھو گا کیونکہ مل جل کر رہنے سے کسی بھی فیملی کا خرچہ کم ھو جاتا ھے بہرحال یہ نظام خاندان کو مضبوط بناتا ھے اور معاشرے میں ایک بارعب،بااثر حیثیت دلاتا ھے۔

Disadvantages of the Joint Family System
Hearing the praise of the joint family system from Asif's mouth, Ahmed started looking at him with surprise and he said in a low voice that it is obvious that there are many positive aspects of the joint family system from which we can benefit. They cannot be denied, but to run the joint family system, a competent, fair head is needed, which we have in the form of Dadajan, but as long as Dadajan is alive, he is running the system. After his passing away, this system has not shown me how it works in our house, becahousalonggdespiteh the positive aspects of this system, there are also many negative aspects which, unfortunately, Dada Jan does not see. but now it is the modern era, all the members of the family, including me, are aware of these defects.
◾Asif asked Ahmed in a surprised tone what are the defects of the joint family system. A successful family system is visible but there are more negative aspects which are hidden and therefore hidden from your eyes, the effects of which are far-reaching and dire.
The biggest obstacle in the development of rural life is the joint family system, which we call the joint family system. Living separately from brothers, and creating a separate economic set-up is considered very lowly, the entire community looks down on this person, even though he is not even guilty of this act.
Living one's life under the joint family system is a great abuse and cruelty to oneself and one's wife, children and one's self. From the smallest decision to the big decision, even a man cannot buy his wife, children's shoes, or clothes by his will, whereas the husband can neither sit and eat with his wife nor One can talk about love and even have to find an opportunity to establish a marital relationship. In this outdated system, no man or woman can even imagine a marriage of their own free will, where the desire for the marriage of the will is considered immoral. It is believed that many times children are betrothed at a very young age. Because adults interfere in their every word, children feel inferior, due to which they lack leadership skills. In fact, in this system, the worthy and the unworthy, the working and the useless are considered equal.

جوائنٹ فیملی سسٹم کے منفی پہلو
◾آصف کے منہ زبانی جوائنٹ فیملی سسٹم کی تعریف سن کر احمد اس کو حیرت کے مارے دیکھنے لگا اور اس نے دھیمی آواز میں بولتے ھوئے کہا کہ ظاہری بات ھے جوائنٹ فیملی سسٹم کے مثبت پہلو بھی بہت زیادہ ہیں جن سے ہم خود مستفید بھی ھو رھے ہیں ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا مگر جوائنٹ فیملی سسٹم کو چلانے کیلئے ایک باصلاحیت ،انصاف پسند سربراہ کی ضرورت ھوتی ھے جو کہ ہمارے پاس دادا جان کی صورت میں موجود ہیں لیکن جب تک دادا جان زندہ ہیں وہ اس سسٹم کو چلا رھے ہیں ان کے دنیا سے جانے کے بعد ہمارے گھر میں یہ نظام مجھے چلتا دکھائ نہیں دے رہا کیونکہ اس سسٹم کے مثبت پہلوؤں کیساتھ منفی پہلو بھی بہت زیادہ ہیں جو کہ بدقسمتی سے دادا جان کو نظر نہیں آ تے وجہ یہی ھے کہ وہ اپنے زمانے کی مناسبت سے سوچ رکھتے ہیں مگر اب جدید دور ھے میرے سمیت خاندان کے جتنے بھی فرد ان نقائص سے آگاہ ہیں ننکی زبان پر تالے لگے ھوئے ہیں ان میں اتنی جرات ہی نہیں ھے کہ اس سسٹم میں تبدیلی لانے کا صرف اظہار تک ہی کر سکیں
◾آصف نے حیرت بھرے لہجے میں احمد سے پوچھا کہ جوائنٹ فیملی سسٹم کے کیا نقائص ہیں ذرا ہمیں بھی تو بتا دیں آصف نے بار بار اصرار کیا تو احمد نے اس کو بتایا کہ تصویر کے ہمیشہ دونوں رخ دیکھے جاتے ہیں ظاہری طور پر آپکو یہ کامیاب فیملی سسٹم دیکھائ دے رہا ھے لیکن اس میں زیادہ منفی پہلو ہیں جو کہ مخفی ہیں اسی لیئے آپکی نظروں سے اوجھل ہیں جن کے اثرات دور رس اور بھیانک ہیں۔
دیہی زندگی کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ یہی مشترکہ خاندانی نظام ھے جس کو ہم جوائنٹ فیملی سسٹم کا نام دیتے ہیں،اس میں ہر گھر میں تمام بھائ ،بیوی بچوں سمیت ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ھوتے ہیں جہاں پر کسی بھی بندے کا دوسرے بھائیوں سے علیحدہ رہائش گاہ،اپنا علیحدہ معاشی سیٹ اپ بنانے کو بہت گھٹیا تصور کیا جاتا ھے،پوری برادری اس بندے کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتی ھے حتی کہ در حقیقت اس کا اس فعل میں ذرا برابر بھی قصور نہیں ھوتا۔
جوائنٹ فیملی سسٹم کے تحت اپنی زندگی بسر کرنا جو کہ سراسر اپنے اور اپنی بیوی ،بچوں اور اپنی ذات کیساتھ بہت بڑی زیادتی اور ظلم ھے جوائنٹ فیملی سسٹم میں کوئ بھی فرد اپنی زندگی اپنی بجائے اپنے خاندان کیلئے گزار رہا ھوتا ھے اس میں فرد اپنی مرضی کا چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ سے لیکر بڑے فیصلے تک بھی نہیں کر سکتا حتی کہ بندہ اپنی مرضی سے اپنی بیوی ،بچوں کے جوتی،کپڑے، بھی نہیں خرید سکتا جہاں پر خاوند اپنی بیوی کیساتھ نہ تو بیٹھ کر کھانا کھا سکتا ھے اور نہ پیار کی بات کر سکتا ھے حتی کہ ازدواجی تعلق قائم کرنے کیلئے موقع کی تلاش کرنا پڑتی ھے اس فرسودہ نظام میں کوئ بھی مرد و عورت اپنی مرضی سے شادی کا تصور تک بھی نہیں کر سکتا، جہاں پر مرضی کی شادی کی خواہش کو بے حیائی سمجھا جاتا ھے کئی مرتبہ تو بچوں کی بچپن ہی منگنی کر دی جاتی ھے بچوں میں بڑوں کے ان کے ہر کام میں ٹانگ اڑانے کی وجہ سے ان میں احساس کمتری پیدا ھو جاتی ھے جسکی وجہ سے سے ان میں قائدانہ صلاحیتییں نا پید ھو جاتی ہیں۔در حقیقت اس نظام میں لائق اور نالائق کو ، کام کرنیوالے اور نکمے کو برابر ہی تصور کیا جاتا ھے اکثر اوقات یہی دیکھنے میں آیا ھے کہ بڑے بھائ قربانی دیتے ہیں اور سب سے چھوٹا بھائ لاڈلہ مفت کی روٹیاں توڑتا ھے۔

◾ The existence of this system is more common in Pakistan and India than in the rest of the world, due to which in these two countries the whole life of mother-in-law and daughter-in-law is spent quarreling with each other. , a relationship of malice and hatred becomes, as a result of which the son can neither please his parents nor his wife and children, if we talk about the truth, the parents have the rights of the children, the children have the rights of the parents, and the husband He cannot pay his wife's rights and someone's daughter who comes to his house as a man's wife, but under this system, her status becomes like a maid.
◾ This system has nothing to do with Eastern and Western society. In every religion of the world, women have been given basic rights, honour and status, but in this system, women have no status other than servants.
Hearing Ahmed's critical conversation, Asif kept quiet.
Reform in the joint family system is the need of the hour
Every system of the world teaches the principles of living if the rights of any individual are being neglected in these principles and laws in any way of life, then it is a defect in this system, so without bringing reforms in this system, it should be corrected. Proving is not correct.
◾Also, everything has a time, things must change with time, any family system or way of life is going right as of that time, but after many years, when a new generation comes. The thinking and behaviour of this generation are not the same as the previous people, due to the change in them, we need to reform the old system so that it innovates with time and the new generation can easily adjust to this system. The defects of this system can be removed. Similarly, the joint family system, which is a centuries-old system, finds it difficult to adjust to the new generation because changes have not been made in it with time. Now a housewife can work with this system but a job-holder woman cannot work in this system because she cannot do housework while being employed. Every youth of the present age wants to marry his choice, but in this system, a marriage of choice cannot take place without the permission of the head of the family.
After that, training is also needed, be it a woman or a man, she should be trained in such a way that she has full knowledge of all the rights of parents, children, husband, and wife so that whether she is a woman or a man, as a parent, as a husband, A wife, as a child, should not violate anyone's rights and should not leave any stone unturned in fulfilling their rights because every relationship in the world is mother, father, husband, wife, son, daughter, grandson, granddaughter, grandson, granddaughter, etc. It has its special status, respect for elders, compassion for children, service to parents, love for children, respect for wife, and respect for husband, these are the beautiful aspects of domestic life.

◾اس نظام کا وجود باقی دنیا کی بجائے پاکستان اور انڈیا میں زیادہ ھے جسکی وجہ سے ان دونوں ممالک میں ساس،بہو کی پوری زندگی آپس میں جھگڑتے گزر جاتی ھے ساس اور بہو کا آپس میں خلوص،پیار و محبت کے رشتے کی بجائے حسد ،کینہ اور بغض والا رشتہ بن جاتا ھے جس کے نتیجے میں بیٹا نہ تو اپنے والدین کو راضی رکھ سکتا اور نہ ہی اپنی بیوی اور بچوں کو، اگر حق کی بات کی جائے تو والدین اولاد کے حقوق ،اولاد والدین کے حقوق، اور شوہر بیوی کے حقوق ادا نہیں کر سکتا اور کسی کی بیٹی جو کہ کسی مرد کی بیوی بن کر ان کے گھر آتی ھے لیکن اس نظام کے تحت اس کی حیثیت نوکرانی جیسی ھو جاتی ھے۔
◾اس نظام کا مشرقی اور مغربی معاشرے سے کوئ تعلق نہ ھے دنیا کے ہر مذہب میں عورت کو بنیادی حقوق،عزت اور مقام و مرتبہ دیا گیا ھے مگر اس سسٹم میں عورت کی نوکرانی کے علاوہ کوئ حیثیت نہیں ھے۔
احمد کی تنقیدی گفتگو سن کر آصف نے چپ سادھ لی۔
جوائنٹ فیملی سسٹم میں اصلاحات لانا وقت کی اہم ضروت
دنیا کا ہر نظام زندگی گزارنے کے اصول سکھاتا ھے اگر کسی بھی طریق زندگی میں ان اصول و قوانین میں کسی بھی فرد کے حقوق کو نظرانداز کیا جا رہا ھو تو وہ اس سسٹم میں خرابی ھے اس لیئے اس نظام میں اصلاحات لائے بغیر اس کو صحیح ثابت کرنا درست نہیں ھے۔
◾اس کے علاوہ ہر چیز کا ایک وقت ھوتا ھے وقت کے ساتھ ساتھ چیزوں میں تبدیلی لازم ھے کوئ بھی فیملی سسٹم یا طریق زندگی اس دور کے اعتبار سے تو صحیح چل رہا ھوتا ھے مگر سالہا سال گزرنے کے بعد جب نئ نسل آتی ھے تو اس نسل کی سوچ ،رویے پہلے لوگوں کی طرح نہیں ھوتے ، ان میں تبدیلی کی وجہ سے ہمیں اس پرانے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ھوتی ھے تاکہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ جدت آئے اور نئی نسل اس سسٹم میں آسانی سے ایڈجسٹ ھو سکے تاکہ اس نظام کے نقائص کو دور کیا جا سکے۔ اسی طرح جوائنٹ فیملی سسٹم جو کہ صدیوں پرانا نظام آ رہا ھے اس میں نئ نسل کا ایڈجسٹ ھونا مشکل نظر آتا ھے کیونکہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں نہیں کی گئ۔ اب ایک گھریلو عورت تو اس نظام کے ساتھ چل سکتی ھے مگر ایک جاب ھولڈر عورت اس نظام میں نہیں چل سکتی کیونکہ وہ ملازمت کے ھوتے ھوئے گھر کے کام نہیں کر سکتی۔ موجودہ دور کا ہر نوجوان اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتا ھے لیکن اس نظام میں تو خاندان کے سربراہ کی اجازت کے بغیر پسند کی شادی نہیں ھو سکتی۔

After that, training is also needed, be it a woman or a man, she should be trained in such a way that she has full knowledge of all the rights of parents, children, husband, and wife so that whether she is a woman or a man, as a parent, as a husband, A wife, as a child, should not violate anyone's rights and should not leave any stone unturned in fulfilling their rights because every relationship in the world is mother, father, husband, wife, son, daughter, grandson, granddaughter, grandson, granddaughter, etc. It has its special status, respect for elders, compassion for children, service to parents, love for children, respect for wife, and respect for husband, these are the beautiful aspects of domestic life.
◾ In fact, the family means husband, wife and children, the family of the husband's brother is another family, so many families can be united in one family under a system, but it causes a lot of problems. There is a famous saying that Four fingers of one hand are not equal Similarly, the same father, mother, sons and daughters cannot be the same in their temperament, nature, thoughts, beliefs, dreams, desires, their behaviour. It is not the same. It has always been the desire of parents that their children, rather their children's children and grandchildren should always be with them, but when someone's children are married and have children, then they are a son, a brother as well. One's father becomes one's husband, one's own separate family comes into existence, then that family can live with parents, but it becomes very difficult to live with the families of one's brothers because by living together, any Personal freedom, privacy, such individual rights of the individual are suppressed.
◾In the joint family system, one should give decision authority to one's children until no man or woman can make their own decision, then they do not feel themselves as a complete man or woman. The ability to make decisions is what makes a person a leader.
◾ Parents should have a friendly attitude with their children so that becomes a habit from childhood to express their wishes and problems openly in front of their parents so that when they grow up, they can tell their parents about their problems, and goals, You can easily convince them towards your opinion by telling them what they want.
◾Just as children are repeatedly urged to pay their parents' rights, society should also convince parents to pay their children's rights so that the balance can be maintained.

◾اس کے بعد تربیت کی بھی ضرورت ھے عورت ھو یا مرد اسکی تربیت اس طرح کی جائے کہ اس کو والدین، اولاد،شوہر،بیوی کے تمام حقوق کا مکمل علم ھو تا کہ وہ عورت ھو یا مرد ، بطور والدین ،بطور شوہر،بیوی، بطور اولاد کسی کے بھی حقوق کی خلاف ورزی نہ کرے اور ان کے حقوق ادا کرنے میں کوئ کسر بھی نہ چھوڑے کیونکہ دنیا کے ہر رشتہ ماں،باپ،خاوند،بیوی،بیٹا،بیٹی، پوتا، پوتی،نواسہ،نواسی وغیرہ کی اپنی ایک الگ حیثیت ھے بڑوں کا ادب ،چھوٹوں پر شفقت،والدین کی خدمت،بچوں سے پیار،بیوی کو عزت دینا،شوہر کا ادب یہی گھریلو زندگی کے خوبصورتی پہلو ہیں۔
◾ درحقیقت خاندان سے مراد میاں بیوی اور بچے ہیں اس خاوند کے بھائ کا خاندان دوسرا خاندان ھے اس طرح کئی خاندانوں کو ایک خاندان میں کسی نظام کے تحت جوڑ کر رکھا تو جا سکتا ھے لیکن اس سے بہت زیادہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ مشہور کہاوت ھے کہ ایک ہاتھ کی چاروں انگلیاں برابر نہیں ھوتی اسی طرح ایک ہی باپ،ماں کے بیٹے ،بیٹیاں وہ ایک جیسی نہیں ھو سکتی ان کے مزاج ،طبیعت،فکر،عقائد، ان کے خواب ،انکی خواہشیں، چال چلن ایک جیسا نہیں ھوتا۔والدین کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ھے کہ انکی اولاد ،بلکہ اولاد کی اولاد پوتے پوتیاں بھی ہمیشہ ان کیساتھ رھے لیکن جب کسی کی اولاد شادی شدہ اور صاحب اولاد ھو جائے تو تب وہ ایک بیٹا،بھائ ھونیکے ساتھ ساتھ کسی کا باپ ،کسی کا شوہر بھی بن جاتا ھے اس کا اپنا ایک علیحدہ خاندان وجود میں آ جاتا ھے پھر وہ خاندان والدین کے ساتھ تو رہ سکتا ھے مگر اپنے بھائیوں کی فیملیز کیساتھ رہنا بہت مشکل ھو جاتا ھے کیونکہ اکٹھے رہنے سے کسی بھی فرد کے شخصی آزادی،رازداری،اس طرح کے انفرادی حقوق دب جاتے ہیں۔
◾جوائنٹ فیملی سسٹم میں اپنی اولاد کو فیصلے کا اختیار دینا چاہیئے جب تک کوئ بھی مرد یا عورت اپنا فیصلہ نہیں کر سکتی تب تک وہ اپنے آپ ایک کو ایک پورا مرد یا عورت محسوس ہی نہیں کرتی۔ فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی ایک انسان کو لیڈر بناتی ھے۔
◾والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنا چاہیئے تاکہ بچپن ہی سے ان کی عادت بن جائے ان کی جو خواہشات،مسائل ھوں وہ والدین کے سامنے کھل کر بیان کریں تا کہ بڑے ھو کر وہ اپنی والدین کو اپنے ذاتی مسائل،مقاصد،خواہشات بتا کر ان کو اپنی رائے کی طرف باآسانی قائل کر سکیں۔
◾جس طرح اولاد کو بار بار والدین کے حقوق ادا کرنے پر زور دیا جاتا ھے سوسائٹی کو اسی طرح والدین کو بھی اپنی اولاد کے حقوق ادا کرنے پر قائل کیا جائے تا کہ توازن برقرار رکھا جا سکے۔

The post is written in Urdu and translated into English using a translator. The images are created in Meta AI WhatsApp.



0
0
0.000
4 comments